کیا بدن ہوگا جلا ہے جو دریچوں کے قریب

غزل| ظفرؔ گورکھپوری انتخاب| بزم سخن

کیا بدن ہوگا جلا ہے جو دریچوں کے قریب
بھیگے موسم میں بھی اتنی آنچ پردوں کے قریب
جیسے وہ جوڑا ابھی تک مانگتا ہے مجھ سے پھول
پاؤں رک جاتے ہیں اکثر آ کے گملوں کے قریب
زندگی نے دے کے محسوسات کی دولت مجھے
کیسی کیسی برچھیاں رکھ دی ہیں سانسوں کے قریب
جانتا تھا ایک دن دنیا کو ہوگی اپنی کھوج
میں نے اپنی رہگزر رکھ دی تھی نقشوں کے قریب

کس کہانی کو بچانا چاہتا تھا وہ ظفرؔ
ایک لرزتا ہاتھ تھا کاغذ کے پرزوں کے قریب


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام