جب اتنی جاں سے محبت بڑھا کے رکھی تھی

غزل| ظفرؔ گورکھپوری انتخاب| بزم سخن

جب اتنی جاں سے محبت بڑھا کے رکھی تھی
تو کیوں قریبِ ہوا شمع لا کے رکھی تھی
ذرا پھوار پڑی اور آبلے اگ آئے
عجب پیاس بدن میں دبا کے رکھی تھی
ہوا کے ساتھ بھٹکنا نصیب ٹہرا ہے
مکاں کی نیو زمیں سے ہٹا کے رکھی تھی
میں ایک رات بھی بے خوف ہوکے سونہ سکا
نہ جانے کون سی دولت کما کے رکھی تھی
اگرچہ خیمۂ شب کل بھی تھا اداس بہت
کم از کم آگ تو ہم نے جلا کے رکھی تھی
وہ ایسا کیا تھا کہ نامطمئن بھی تھے اس سے
اسی سے آس بھی ہم نے لگا کے رکھی تھی
یہ آسمان ظفرؔ ہم پہ بے سبب ٹوٹا
اڑان کون سی ہم نے بچا کے رکھی تھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام