جنونِ شوق کا حاصل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

غزل| کیفؔ مراد آبادی انتخاب| بزم سخن

جنونِ شوق کا حاصل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
کہاں دونوں کی ہے منزل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
ڈبونا چاہتی تھیں جو بھی ہم دونوں کی کشتی کو
انہیں موجوں میں تھا ساحل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
تمناؤں کے طوفانوں نے فرصت ہی نہ ملنے دی
مقاماتِ نگاہ و دل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
محبت نے کچھ ایسا حوصلہ بخشا تھا دونوں کو
کسی مشکل کو بھی مشکل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
شدید احساسِ قربت سے جہاں مدہوش تھے ہم تم
وہیں تھا امتحانِ دل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
محبت صرف اظہارِ محبت کو نہیں کہتے
فریبِ سعیٔ لا حاصل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
وفا کا عہد کیسی سادگی کے ساتھ کر بیٹھے
وفا ہے کس قدر مشکل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
سبھی بیگانہ تھے ظاہر میں ہم دونوں کی حالت سے
مگر کوئی نہ تھا غافل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

وہ کہتے ہیں ہمیں بھی کیفؔ رسوا کر دیا تم نے
مگر رسوائی کا حاصل نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام