کوئی آواز ہو ٹوٹی ہوئی دیواروں سے

غزل| نسیمؔ مخموری انتخاب| بزم سخن

کوئی آواز ہو ٹوٹی ہوئی دیواروں سے
فکر جلنے لگی الفاظ کے انگاروں سے
دامنِ زیست میں داغوں کے سوا کچھ بھی نہیں
لوٹ آئے گا کوئی شہر کے بازاروں سے
کیسا آسیب زدہ ہو گیا دنیا کا چلن
ڈر سا لگتا ہے مجھے اپنی ہی دیواروں سے
ٹوٹنے والوں کے احساس سے پوچھو جا کر
لوگ واقف ہی کہاں ہوتے ہیں جھنکاروں سے
جھانک کر دیکھئے اندر تو اندھیرا ہوگا
روشنی لاکھ نکلتی رہے میناروں سے
کون رویا تھا یہاں کس نے صدائیں دی تھیں
رات پھر پوچھ رہی تھی مری دیواروں سے

غم کو سینے سے لگا کر بھی رہی شاد نسیمؔ
زندگی بوجھ ہے اٹھتی نہیں بیماروں سے

نوٹ:۔ غزل اور مقطع کے کچھ مصرعے یوں بھی درج ہیں۔ { کتنا آسیب زدہ ہے یہ زمانے کا چلن / یاس انسان کو بیمار بناتی ہے نسیمؔ / زندگی بوجھ ہے اٹھتا نہیں بیماروں سے }۔ ادارہ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام