ترے عشق میں زندگانی لٹا دی

غزل| بہزادؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

ترے عشق میں زندگانی لٹا دی
عجب کھیل کھیلا جوانی لٹا دی
نہیں دل میں داغِ تمنا بھی باقی
انہیں پر سے ان کی نشانی لٹا دی
کچھ اسطرح ظالم نے دیکھا کہ ہم نے
نہ سوچا نہ سمجھا جوانی لٹا دی
تمہارے ہی کارن تمہاری بدولت
تمہاری قسم زندگانی لٹا دی
اداؤں کو دیکھا نگاہوں کو دیکھا
ہزاروں طرح سے جوانی لٹا دی
غضب تو یہ ہے ہم نے محفل کی محفل
سنا کر وفا کی کہانی لٹا دی
جہاں کوئی دیکھا حسیں جلوہ آرا
وہیں ہم نے اپنی جوانی لٹا دی
نگاہوں سے ساقی نے صہبائے الفت
ستم یہ ہے تا دورِ ثانی لٹا دی
جوانی کے جذبوں سے اللہ سمجھے
جوانی جو دیکھی جوانی لٹا دی
بجھائی ہے پیاس آج دامن کی ہم نے
شرابِ نظر کر کے پانی لٹا دی
تمہیں پر سے بہزادؔ نے بیخودی میں
کیا دل تصدّق جوانی لٹا دی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام