فغاں شکارِ اثر ہو گئی تو کیا ہوگا

غزل| بہزادؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

فغاں شکارِ اثر ہو گئی تو کیا ہوگا
جو بات اِدھر ہے اُدھر ہو گئی تو کیا ہوگا
رُکو رُکو میری آہو ، تھمو تھمو اشکو
جو بے خبر کو خبر ہو گئی تو کیا ہوگا
بڑی امید لگائے ہوں شامِ غم سے مگر
جو شامِ غم بھی بسر ہو گئی تو کیا ہوگا
شبِ فراق دعائے سحر میں کیوں مانگوں
تڑپ رہے گی سحر ہو گئی تو کیا ہوگا
ابھی تو آنکھ پہ قابو ہے مجھ کو ائے بہزادؔ
جو ان کے سامنے تر ہو گئی تو کیا ہوگا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام