ہمارے خواب کا منظر بدلنے والا ہے

غزل| زاہد فخریؔ انتخاب| بزم سخن

ہمارے خواب کا منظر بدلنے والا ہے
چراغ رہنے دو سورج نکلنے والا ہے
شبِ سیاہ کا خیمہ اکھڑنے والا ہے
سرائے جاں میں سویرا اترنے والا ہے
تو خوش بہت تھا کہ بے دست و پا ہیں ساتھی ترے
اب ان میں ہر کوئی تجھ سے الجھنے والا ہے
ہمارے اشک بھی اب رائیگاں نہ جائیں گے
یہ سیل تجھ کو بہا کر گزرنے والا ہے
گئے دنوں کا بھی تجھ سے حساب مانگیں گے
جو جا چکا تھا پلٹ کر جھپٹنے والا ہے
کئی دنوں سے تیری شکل بھی نہیں دیکھی
تو در تو کھول ترا کوئی ملنے والا ہے
اب اس کے اپنے قدم تجھ سے تیز تر ہوں گے
جو گر چکا تھا زمیں پر سنبھلنے والا ہے
جو ایک لفظ بھی سنتا نہ تھا خلاف ترے
ذرا سی بات پہ اب تجھ سے لڑنے والا ہے

نمی کچھ آئی ہے اس کی بھی آنکھ میں فخریؔ
زمینِ سنگ سے چشمہ ابلنے والا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام