اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا

غزل| زاہد فخریؔ انتخاب| بزم سخن

احمد ندیم قاسمی سے غلط منسوب جناب زاہد فخریؔ کی غزل*

اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی وہ میرا وقتِ زوال تھا
مرا درد کیسے وہ جانتا مری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا اسے روکنا بھی محال تھا
کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
وہ جو اس کے سامنے آ گیا وہی روشنی میں نہا گیا
عجب اس کی ہیبتِ حسن تھی عجب اس کا رنگِ جمال تھا
دمِ واپسیں اسے کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ تو اپنی آپ مثال تھا
وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی مرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رُلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا

مرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا مجھے فخریؔ اتنا وہ کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا

*/ یہ غزل انٹرنیٹ پر مطلع اور مقطع میں اختلاف اور دیگر مزید کچھ تبدیلیوں کے ساتھ (اندیشۂ زوال انتخاب کلام احمد ندیم قاسمی) میں 'اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا' عنوان سے قاسمی صاحب کی طرف منسوب ہے جب کہ کہیں اور جگہ پروین شاکر کی طرف بھی انتساب کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں ، در اصل یہ غزل جناب زاہدؔ فخری کی ہے۔(ادارہ)


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام