کون سا میں جواز دوں صورتِ حال کے لئے

غزل| طارقؔ قمر انتخاب| بزم سخن

کون سا میں جواز دوں صورتِ حال کے لئے
دستِ سخی میں کچھ نہیں دستِ سوال کے لئے
اپنی تباہیوں پہ بھی کھل کے نہ رو سکے کبھی
وقت ہی کب ملا ہمیں رنج و ملال کے لئے
اس سے میں اس طرح ملا جیسے مجھے پتا نہیں
کرتا ہے کون سازشیں میرے زوال کے لئے
تم بھی کھنچے کھنچے سے تھے ہم بھی بچے بچے رہے
دونوں ہی ذمہ دار ہیں شیشے میں بال کے لئے
پھولوں کو ہر گھڑی رہی کانٹوں سے خون کی طلب
تھوڑا سرور کے لئے تھوڑا جمال کے لئے
اب کے برس کی فصل بھی پچھلے لگان میں گئی
سود میں فاقے رہ گئے اب کے بھی سال کے لئے

کہہ دو یہ شہریار سے دار و رسن سجے رہیں
ظلم و ستم بھی شرط ہیں جاہ و جلال کے لئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام