ساحل سے زندہ لوٹ نہ آئے تو کیا کریں

غزل| وامقؔ جونپوری انتخاب| بزم سخن

ساحل سے زندہ لوٹ نہ آئے تو کیا کریں
کب تک کنارے لوٹتی موجیں گنا کریں
اس خاک داں میں رہنے سے اکتا گیا ہے دل
جی چاہتا ہے پھر کوئی بھاری خطا کریں
گھر میں تو اب کوئی نہیں پہچانتا ہمیں
سائل کی طرح در پہ نہ جائیں تو کیا کریں
مثلِ مگس میں لپٹا رہوں گا گلاب سے
کتنی ہو تند و تیز ہوائیں چلا کریں
مے کا تمام لطف گیا دلبروں کے ساتھ
اب لاکھ اودی اودی گھٹائیں اٹھا کریں
ہم نے اٹھایا سر تو گنہگار ہو گئے
سر زد ہوئے جو ان سے مظالم ہوا کریں
پھر قاتلوں سے کہہ دو کہ میں لکھ رہا ہوں شعر
پھر آ کے میرا ہاتھ قلم سے جدا کریں
دار و رسن کی بات پھر آئی زبان پر
لیکن کہاں وہ لوگ جو خوفِ خدا کریں
ممکن ہے اس کو توڑ کے نکلے کوئی درخت
پتھر کے سامنے چلو مل کر دعا کریں
یہ ہیں کتابیں میرے نشاناتِ پا نہیں
اب دوست میرا حال انہی میں پڑھا کریں

وامقؔ کا ہے تضاد منافق بہ ایں سبب
ملنا اگر ہے ان کو تو کھل کر ملا کریں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام