ظلمتیں چاہیں نہ چاہیں آفتاب آئے گا دوست

غزل| حسن نعیمؔ انتخاب| بزم سخن

ظلمتیں چاہیں نہ چاہیں آفتاب آئے گا دوست
اعتبار آئے نہ آئے انقلاب آئے گا دوست
وقت کے عارض کا غازہ آج ہے جس کا لہو
کل وہی محفل میں آزادِ نقاب آئے گا دوست
اس کا کیا غم آج گر مغموم ہے بے چین ہے
کل سکوں دل کو بقدرِ اضطراب آئے گا دوست
رہ گزر افکار کی ہے آج ماتھے کی شکن
کل اسی رستے پہ چل کر میرا خواب آئے گا دوست
ہر تبسم ہر نگہ ہر لمحہ مانگے گا خراج
زندگی میں ایک دن روزِ حساب آئے گا دوست
کوئی کچھ بھی آج کہہ لے مسکراوں گا ابھی
مطمئن ہوں آنے والا بے نقاب آئے گا دوست

عرش و کرسی یہ نہیں جو حکم سے بن جائے کام
یہ زمیں ہے رفتہ رفتہ انقلاب آئے گا دوست


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام