میں اپنے خول سے باہر نکل کے ٹوٹ گیا

غزل| ابن حسؔن بھٹکلی انتخاب| بزم سخن

میں اپنے خول سے باہر نکل کے ٹوٹ گیا
قدم قدم پہ گرا اور سنبھل کے ٹوٹ گیا
ترا خیال مکمل بنا رہا تھا مجھے
میں اپنی فکر کا محور بدل کے ٹوٹ گیا
وفورِ عشق بھی کوئی عذاب ہے شاید
یوں لگ رہا ہے مرا دل بہل کے ٹوٹ گیا
کسی بھی لفظ کو معنی نہ دے سکے ہم لوگ
ہر ایک لفظ زباں سے پھسل کے ٹوٹ گیا
میں مطمئن تھا مگر تیری یاد آتے ہی
مرے لبوں پہ تبسّم مچل کے ٹوٹ گیا
وہ ایک خواب جسے میں نے بارہا دیکھا
ابھی ابھی مری غزلوں میں ڈھل کے ٹوٹ گیا

جسے بھی ابنِ حسؔن میں نے ہم سفر جانا
ذرا سی دور مرے ساتھ چل کے ٹوٹ گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام