دروازے سے مت لوٹ آؤ لوٹ آ کر پچھتاؤ گے

غزل| افتخار امام صدیقی انتخاب| بزم سخن

دروازے سے مت لوٹ آؤ لوٹ آ کر پچھتاؤ گے
تنہائی سے خوف لگے گا خود سے بھی گھبراؤ گے
خوش فہمی کے شیش محل کو ایک دن ٹوٹ ہی جانا تھا
اب بھی جو تم نہ سمجھے تو رہ رہ کر پچھتاؤ گے
سایہ سایہ ملنے سے تو نہ ملنا ہی بہتر ہے
جسموں کی اس آگ سے آ کر کب تک آنکھ چراؤ گے
وہم و گماں کی اس بستی میں بہتر ہے خاموش رہو
جتنے منہ اتنی ہی باتیں کس کس کو سمجھاؤ گے

رنگوں کی اس بھیڑ میں تم کو بھایا ہے کیوں ایک ہی رنگ
بھید یہ اپنے دل کا کیسے اوروں کو بتلاؤ گے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام