حسن کو دیکھا تو حیرت ہو گئی

غزل| دلؔ ایوبی انتخاب| بزم سخن

حسن کو دیکھا تو حیرت ہو گئی
عشق کو سمجھا تو حیرت ہو گئی
تھا بہت ارمان اپنی دید کا
خود کو جب دیکھا تو حیرت ہو گئی
رہ گیا سب اعتبارِ چشمِ شوق
اٹھ گیا پردہ تو حیرت ہو گئی
عشق کو اپنی تڑپ پر ناز تھا
حسن جب تڑپا تو حیرت ہو گئی
قطرہ قطرہ دیکھتے ہی دیکھتے
بن گیا دریا تو حیرت ہو گئی
بت کدے کی راہ میں ہر موڑ پر
مل گیا کعبہ تو حیرت ہو گئی
جستجو نے ہر قدم پہ پر منتظر
آپ کو پایا تو حیرت ہو گئی
دیکھ سکتے ان کو بیداری میں کیا
خواب ہی دیکھا تو حیرت ہو گئی
بارہا دیکھا تھا اے دلؔ آئینہ
غور سے دیکھا تو حیرت ہو گئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام