موم کا جسم لیے دھوپ میں چلنا سیکھو

غزل| سعیدؔ رحمانی انتخاب| بزم سخن

موم کا جسم لیے دھوپ میں چلنا سیکھو
وقت کے ساتھ ذرا خود کو بدلنا سیکھو
لوگ محفوظ جزیرے میں رہا کرتے ہیں
تم مسائل کے سمندر میں ٹہلنا سیکھو
جن پہ چلتے ہوئے خطروں کا گماں ہوتا ہے
یہ ضروری ہے کہ ان راہوں پہ چلنا سیکھو
وہ اگر چاہے تو گل زار بنا سکتا ہے
درد کی تیز الاؤ میں بھی جلنا سیکھو
جھوٹ کا سکہ چلاؤ گے جہاں میں کب تک
سچ کے سانچے میں یہی وقت ہے ڈھلنا سیکھو
زہر نفرت کا اگلتے ہیں جو یہ ناگ سعیدؔ
اپنے پیروں تلے سر ان کا کچلنا سیکھو



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام