دھوپ کے صحرا میں کوئی ہم سفر ہوتا نہیں

غزل| سعیدؔ رحمانی انتخاب| بزم سخن

دھوپ کے صحرا میں کوئی ہم سفر ہوتا نہیں
دور تک رستے میں میرے اک شجر ہوتا نہیں
زندگی مزدور کی فٹ پاتھ پر کٹتی رہی
اس کے حصے میں حصارِ بام و در ہوتا نہیں
پاؤں کے نیچے زمیں رکھتے ہیں سر پر آسماں
ہم فقیروں کا جہاں میں کوئی گھر ہوتا نہیں
روح تک مجروح ہو جاتی ہے جس کے وار سے
ذہن و دل کو حملۂ غم سے مفر ہوتا نہیں
قتل و خوں کرنے میں جس کو لطف آتا ہے بہت
آدمی ہوتا ہے لیکن وہ بشر ہوتا نہیں
ہم خلوصِ دل کے سجدے اب نہیں کرتے سعیدؔ
اس لئے اپنی دعاؤں میں اثر ہوتا نہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام