تری یادوں کی نقّاشی کھرچ کر پھینک آئے ہیں

غزل| ندیم ماہرؔ انتخاب| بزم سخن

تری یادوں کی نقّاشی کھرچ کر پھینک آئے ہیں
جھلستی ریت پر ہم اک سمندر پھینک آئے ہیں
عقیق و نیلم و لعل و جواہر پھینک آئے ہیں
سمندر میں عجب منظر شناور پھینک آئے ہیں
تری یادیں تری باتیں سبھی اوراق پارینہ
ہم اک اک کر کے سب دل سوز منظر پھینک آئے ہیں
تلاطم ہو کہ طوفاں ہو یہ دریا پار کرنا ہے
ہم اپنی کشتیاں موجوں کے اندر پھینک آئے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام