یگانوں سے ہے شرمندہ نہ بیگانوں سے شرمندہ

غزل| رئیسؔ الشاکری انتخاب| بزم سخن

یگانوں سے ہے شرمندہ نہ بیگانوں سے شرمندہ
دو روزہ زندگی ہے تیرے احسانوں سے شرمندہ
نظامِ زندگی بدلا ہے ہم ہی بادہ خاروں نے
ہوا ہے جام جم بھی ٹوٹے پیمانوں سے شرمندہ
مقامِ شرم ہے ایمان کے سچے پرستارو!
کہ اہلِ دیر ہوں کعبے کے افسانوں سے شرمندہ
مرے زاہد معاف کرنا حقیقت عرض کرتا ہوں
ہے ایماں آج کل تسبیح کے دانوں سے شرمندہ
وہ انساں کوئی انساں ہے جو اوروں کے نہ کام آئے
ہے خود انسانیت بھی ایسے انسانوں سے شرمندہ
جنونِ عشق میں وہ امتیازی شان پائی ہے
خرد والے ہوئے ہیں تیرے دیوانوں سے شرمندہ
بہار آتے ہی گلشن میں چلے یوں جانبِ صحرا
ہو روحِ قیسؔ بھی ہم چاک دامانوں سے شرمندہ
نہ پوری ہو سکی دل میں تمنا جو بھی ابھری ہے
رئیسؔ اکثر ہوا ہے اپنے ارمانوں سے شرمندہ



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام