جذب کی سب انتہاؤں کا تماشا ہر طرف

غزل| حامدؔ اقبال صدیقی انتخاب| بزم سخن

جذب کی سب انتہاؤں کا تماشا ہر طرف
تم کہاں تھے تم نہیں تھے میں ہی میں تھا ہر طرف
یہ مرے دل میں سمٹ آئے گی اک دن دیکھنا
تم نے کس عالم میں پھیلائی تھی دنیا ہر طرف
دشت میں بھی آ ملے تھے کائناتی سلسلے
وحشتوں نے کر دیا تھا میرا چرچا ہر طرف
تم نے میرے در پہ لا چھوڑا اسے اچھا کیا
ورنہ یوں ہی بے سبب یہ غم بھٹکتا ہر طرف

میرے حق میں تو ہر اک موسم خزاں آثار تھا
کس کی صناعی نے گل منظر سجایا ہر طرف


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام