یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا پتا کہاں کوئے نازنیں کا

غزل| امیرؔ مینائی انتخاب| بزم سخن

یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا پتا کہاں کوئے نازنیں کا
غبار آسا نہیں کہیں کا نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا
یہ طرزِ وحشت نے رنگ باندھا کہ ہوگیا دو جہاں کو سودا
زمیں پہ جادہ فلک پہ جوزا نشان ہے چاک آستیں کا
ذرا جو کاتب کو رحم آتا تو بخت بنیاد ہی مٹاتا
درست لکھتا تو ٹوٹ جاتا قلم ہمارے خطِ جبیں کا
چمن ہے بلبل کے خوں کا محضر گواہ ہیں برگ و بر سراسر
نہیں ہے یہ داغ لالۂ تر یہ نقش ہےمہر کی نگیں کا
یہ جتنے پتلے ہیں ماوطیں کے نہ آسماں کے نہ ہیں زمیں کے
نشاں تک مٹ گۓ جبیں کے کھلا نہ مطلب خطِ جبیں کا
غمِ محبت ہے جس کا مطلب کدورت اس دل کی ہو عیاں کب
کہ ہے مے جب تک ہے خمِ لبالب پتا کہاں درد تہہِ نشیں کا
کیا تھا کیوں ادعائے باطل ہوا تھا اس تل سے کیوں مقابل
سزا ملی ہو گیا سیہ دل جو مشک نافہ غزالِ چیں کا
بڑھے سلیمان کے جتنے رتبے تمہاری الفت کے تھے کرشمے
یہ نقش جس دل میں جم کے بیٹھے بلند ہو نام اس نگیں کا
کہاں کا نالہ کہاں کا شیون ثنائے قاتل ہے وقتَ مردن
قلم ہوئی ہے بدن سے گردن زباں پہ نعرہ ہے آفریں کا
قریب ہے یار روزِ محشر چھپے گا کشتوں کا قتل کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
عجب مرقع ہے باغِ دنیا کہ جس کا صانع نہیں ہویدا
ہزار ہا صورتیں ہیں پیدا پتا نہیں صورت آفریں کا
ہوا نہ دشوار جس کو مرنا اسی گلی میں تھا اپنی دھرنا
نہ تھا مناسب عزیز کرنا موے پہ دو چار گز زمین کا
لکھا جو وصف ایک گل بدن کا تو رنگ پیدا ہوا چمن کا
جو صفحہ ہے برگِ یاسمن کا تو خامہ ہے شاخِ یاسمیں کا
کمالِ احباب سے ہے شکوہ کیا نہ عرس ایک دن ہمارا
سرِ لحد ہی ہجوم ہوتا کبھی حسینانِ مہ جبیں کا
اثر ہے گیسو کا یہ تمہارے کہ حرف آگیں ہیں حرف سارے
ورق ہے دیواں میں جو ہمارے وہ تختہ ہے عطر کی زمیں کا
نہیں ہے اب ذکرِ رسمِ ماضی گنہ کی تعزیر پر ہوں راضی
لگائے درہ جو مجھ کو قاضی کسی کے گیسوئے عنبریں کا
خدا سے جب تک نہ ہو شناسا حریمِ دل کا ہے شوق بے جا
مکان کا تب پتا ملے گا کہ کچھ پتا یاد ہو مکیں کا
کہاں ہے ایسے نصیب اپنے کہ پڑھ کے مضموں جواب لکھے
اڑائے نامہ کے اس نے پرزے کھلا لفافہ خطِ جبیں کا
ملا ہے جن کو دل مصفّی برے کو بھی دیکھتے ہیں اچھا
پڑے گا عکس آئینے میں سیدھا ہزار الٹا ہو خط نگیں کا
جنوں کا ہم پر ہے قطع جامہ قبا کہاں کی لباس کیسا
ہمارے بازو تلک نہ پہنچا کسی طرح ہاتھ آستیں کا
کس آستانے پہ جا پڑا ہوں کہاں الٰہی میں جبہہ سا ہوں
کہ سر نہ اٹھے ہزار چاہوں یہ ربط ہے سجدہ و زمیں کا
کہاں کا کعبہ ہے دیر کیسا بتاؤ کوچے کا اس کے رستا
میں پوچھتا ہوں پتا کہیں کا نشان دیتے ہو تم کہیں کا

امیرؔ گھڑیوں رہی خموشی گلے سے آواز تلک نہ نکلی
خیال جس رات خواب میں بھی بندھا کسی چشمِ سرمگیں کا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام