پوچھا نہ جائے گا جو وطن سے نکل گیا

غزل| امیرؔ مینائی انتخاب| بزم سخن

پوچھا نہ جائے گا جو وطن سے نکل گیا
بیکار ہے جو دانت دہن سے نکل گیا
خلعت پہن کے آنے کی تھی گھر میں آرزو
یہ حوصلہ بھی گور و کفن سے نکل گیا
پہلو میں مرے دل کو نہ ائے درد کر تلاش
مدت ہوئی غریب وطن سے نکل گیا
مرغانِ باغ تم کو مبارک ہو سیرِ گل
کانٹا تھا ایک میں سو چمن سے نکل گیا
کیا رنگ تیری زلف کی بو نے اڑا دیا
کافور ہو کے مشکِ ختن سے نکل گیا
کیا شوق تھا جو یاد سگِ یار نے کیا
ہر استخوان تڑپ کے بدن سے نکل گیا
مدِ نظر رہی ہمیں ایسی رضائے دوست
کاٹی زبان جو شکوہ دہن سے نکل گیا
میں شعر پڑھ کے بزم سے کیا اٹھ گیا امیرؔ
بلبل چہک کے صحنِ چمن سے نکل گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام