ہیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں کمر کے عاشق

غزل| امیرؔ مینائی انتخاب| بزم سخن

ہیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں کمر کے عاشق
نہ ادھر کے ہیں الٰہی نہ اُدھر کے عاشق
ہے وہی آنکھ جو مشتاق ترے دید کی ہو
کان وہ ہیں جو رہیں تیری خبر کے عاشق
جتنے ناوک ہیں کماں دار ترے ترکش میں
کچھ مرے دل کے ہیں کچھ میرے جگر کے عاشق
برہمن دیر سے کعبے سے پھر آئے حاجی
تیرے در سے نہ سرکنا تھا نہ سرکے عاشق
آنکھ دکھلاؤ انہیں مرتے ہوں جو آنکھوں پر
ہم تو ہیں یار محبت کی نظر کے عاشق
چھپ رہے ہوں گے نظر سے کہیں عنقا کی طرح
توبہ کیجے کہیں مرتے ہیں کمر کے عاشق
بے جگر معرکۂ عشق میں کیا ٹھہریں گے
کھاتے ہیں خنجرِ معشوق کے چرکے عاشق
تجھ کو کعبہ ہو مبارک دلِ ویراں ہم کو
ہم ہیں زاہد اسی اجڑے ہوئے گھر کے عاشق
کیا ہوا لیتی ہیں پریاں جو بلائیں تیری
کہ پری زاد بھی ہوتے ہیں بشر کے عاشق
بیکسی ، درد و الم ، داغ ، تمنا ، حسرت
چھوڑے جاتے ہیں پسِ مرگ یہ ترکے عاشق

بے سبب سیر شبِ ماہ نہیں ہے یہ امیرؔ
ہو گئے تم بھی کسی رشکِ قمر کے عاشق


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام