اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی

غزل| شاہینؔ عباس انتخاب| ابو الحسن علی

اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی
بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی
ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آسان تھا کیا
محبت ایک تھی اور ایک بھی ہوتی نہیں تھی
دیا پہنچا نہیں تھا آگ پہنچی تھی گھروں تک
پھر ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی
نکل جاتے تھے سر پر بے سر و سامانی لادے
بھری لگتی تھی گٹھری اور بھری ہوتی نہیں تھی
ہمیں یہ عشق تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا
شبِ ہجراں جب اتنی سرسری ہوتی نہیں تھی
ہمیں جا جا کے کہنا پڑتا تھا ہم ہیں یہیں ہیں
کہ جب موجودگی موجودگی ہوتی نہیں تھی
بہت تکرار رہتی تھی بھرے گھر میں کسی سے
جو شے درکار ہوتی تھی وہی ہوتی نہیں تھی

تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے
ہمارا وقت اچھا تھا گھڑی ہوتی نہیں تھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام