سرِ شام کس کی نظر لگی میرے آئینے کو یہ کیا ہوا

غزل| ارشدؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

سرِ شام کس کی نظر لگی میرے آئینے کو یہ کیا ہوا
کبھی کوئی چہرہ کھلا ہوا کبھی کوئی چہرہ بجھا ہوا
مگر ایسی شامِ سیاہ میں میرا دل تھا کس کی نگاہ ہمیں
یہ چراغ کون جلا گیا جو پڑا تھا کل سے بجھا ہوا
ابھی گہری نیند میں سو گیا ہے مسافرِ شبِ زندگی
کوئی کوس تنہا چلا ہوا کئی منزلوں کا تھکا ہوا
کبھی خوشبو بن کے بکھر گیا کبھی نغمہ بن کے نکھر گیا
سرِ شاخِ فکر کہاں رکا کبھی کوئی پھول کھلا ہوا
وہی دشتِ غم کی صعوبتیں نہ تسلیاں ، نہ رفاقتیں
وہی بکھری بکھری فضائے جاں وہی آسمان کھلا ہوا
مری فکر کے شانے پہ رکھ کے سر وہی شخص رویا ہے رات بھر
کئی خوشبوؤں میں بسا ہوا کئی نکہتوں میں دھلا ہوا
میں تو خوش ہوں ارشدِؔ خوش بیاں مجھے دل کے بجھنے کا غم کہاں
میرے شامِ عمر کے موڑ پر چلو کوئی تو حادثہ ہوا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام