پوچھا ہے دشمنوں نے جب اپنے شعور سے

نعت| مولانا ذکی کیفیؔ انتخاب| بزم سخن

پوچھا ہے دشمنوں نے جب اپنے شعور سے
پنہاں ملی دلوں میں عقیدت حضور سے
اُس جانِ جاں کا نام مبارک لبوں پہ ہے
دل آشنا ہے عالمِ کیف و سرور سے
فیضانِ عام ساقئ کوثر کا دیکھئے
ہم بے پئے ہیں مست شرابِ طہور سے
چھائی ہوئی تھی ظلمتِ شب دور دور تک
آتی ہے اب نویدِ سحر دور دور سے
اِس کا اثر اگر مرے کردار میں نہ ہو
کیسے کہوں مجھے ہے محبّت حضور سے؟
سائے میں ہیں اک ایسے رؤف و رحیم کے
جس نے ملا دیا ہمیں ربِّ غفور سے
دولت خدا نے دی جنھیں عشقِ رسول کی
دنیا سے ان کو کام نہ حور و قصور سے
وہ صرف کور چشم نہیں تیرہ بخت ہیں
جو کسبِ فیض کر نہ سکے ان کے نور سے
آمد سے ان کی زیست کی قدریں بدل گئیں
دنیا حسین بن گئی ان کے ظہور سے
آسودہ آ کے منزلِ بطحا میں ہو گیا
جلووں کا کارواں جو چلا کوہِ نور سے

کیفیؔ پڑھا درود تو محسوس یہ ہوا
جیسے گزر رہا ہوں اک سیلِ نور سے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام