شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا

غزل| قمرؔ جمیل انتخاب| بزم سخن

شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا
پھول بھی کیسے پھول تھے جن کو سخن کا حق نہ تھا
یار عجیب یار تھا جس کے ہزار نام تھے
شہر عجیب شہر تھا جس میں کوئی طبق نہ تھا
ہاتھ میں سب کے جلد تھی جس کے عجیب رنگ تھے
جس پہ عجیب نام تھے اور کوئی ورق نہ تھا
جیسے عدم سے آئے ہوں لوگ عجیب طرح کے
جن کا لہو سفید تھا جن کا کلیجہ شق نہ تھا
جن کے عجیب طور تھے جن میں کوئی کرن نہ تھی
جن کے عجیب درس تھے جن میں کوئی سبق نہ تھا
لوگ کٹے ہوئے ادھر لوگ پڑے ہوئے ادھر
جن کو کوئی الم نہ تھا جن کو کوئی قلق نہ تھا
جن کا جگر سیا ہوا جن کا لہو بجھا ہوا
جن کا رفو کیا ہوا چہرہ بہت ادق نہ تھا
کیسا طلسمی شہر تھا جس کے طفیل رات تھی
میرے لہو میں گرد تھی آئینۂ شفق نہ تھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام