چپ چاپ سرِ شہرِ وفا سوچ رہے ہو

غزل| یاورؔ عظیم انتخاب| بزم سخن

چپ چاپ سرِ شہرِ وفا سوچ رہے ہو
لگتا ہے کوئی اپنی خطا سوچ رہے ہو
وہ کون ہے گزرا تھا جو اِس راہ گزر سے
کس کے ہیں نقوشِ کفِ پا سوچ رہے ہو
تم سوچتے رہتے ہو کہ کیا دیکھ رہا ہوں
میں دیکھتا رہتا ہوں کہ کیا سوچ رہے ہو
خود اپنے گلستان کے پھولوں کو مسل کر
ناراض ہے کیوں موجِ صبا سوچ رہے ہو
اک وہ ہیں جو تکمیلِ سفر کر بھی چکے ہیں
اک تم ہو ابھی نامِ خدا سوچ رہے ہو
یک رنگیٔ افکار کے اِس دور میں یاورؔ
حیران ہوں تم سب سے جدا سوچ رہے ہو



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام