چہرے کی دھوپ زلف کے سائے سمٹ گئے

غزل| اخترؔ ضیائی انتخاب| بزم سخن

چہرے کی دھوپ زلف کے سائے سمٹ گئے
پل کی جھپک میں وصل کے ایام کٹ گئے
اور مصلحت شناس تیرا کھل گیا بھرم!
لے ہم ہی تیرے پیار کے رستے سے ہٹ گئے
پاسِ ادب کہ پاسِ مرّوت کہیں اسے
اکثر لبوں تک آئے گلے اور پلٹ گئے
پائی نہ پھر بتوں نے وہ یکسانی الست
رنگوں میں بٹ گئے کبھی شکلوں میں بٹ گئے
گلشن میں چل گیا ہے بدلتی رتوں کا سحر
نغمے ابل پڑے کبھی ملبوس پھٹ گئے
گزری چمن سے موجِ صبا ناچتی ہوئی
کانٹے مچل کے دامنِ گل سے لپٹ گئے

اخترؔ وہ شوقِ دید کی لذت وہ بے کلی!
آ کر گئے وہاں کبھی جا کر پلٹ گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام