پھر سے وہی منظر پسِ منظر سے نکالو

غزل| بھارت بھوشن پنت انتخاب| بزم سخن

پھر سے وہی منظر پسِ منظر سے نکالو
ڈوبے ہوئے سورج کو سمندر سے نکالو
لفظوں کا تماشا تو بہت دیکھ چکے ہم
اب شعر کوئی فکر کے محور سے نکالو
گر عشق سمجھتے ہو تو رکھ لو مجھے دل میں
سودا ہوں اگر میں تو مجھے سر سے نکالو
اب چاہے محبت کا وہ جذبہ ہو کہ نفرت
جو دل میں چھپا ہے اسے اندر سے نکالو
میں کب سے صدا بن کے یہاں گونج رہا ہوں
اب تو مجھے اس گنبدِ بے در سے نکالو
وہ درد بھری چیخ میں بھولا نہیں اب تک
کہتا تھا کوئی بت مجھے پتھر سے نکالو

یہ شخص ہمیں چین سے رہنے نہیں دے گا
تنہائیاں کہتی ہیں اسے گھر سے نکالو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام