سرِ صحرائے یقیں شہرِ گماں چاہتے ہیں

غزل| عرفانؔ ستار انتخاب| بزم سخن

سرِ صحرائے یقیں شہرِ گماں چاہتے ہیں
ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں
جس سے اٹھتے ہیں قدم راہِ جنوں خیز میں تیز
ہم بھی شانے پہ وہی بارِ گراں چاہتے ہیں
رخ نہ کر جانبِ دنیا کہ اسیرانِ نظر
تجھ کو ہر دم اسی جانب نگراں چاہتے ہیں
ایسے گرویدہ کہاں ہیں لب و رخسار کے ہم
ہم تو بس قربتِ شیریں سخناں چاہتے ہیں
چاہتے ہیں کہ وہ تا عمر رہے پیشِ نظر
ایک تصویر سرِ آبِ رواں چاہتے ہیں
جس میں سیراب ہیں آنکھیں جہاں آباد ہیں دل
ہم اُسی شہرِ تخیل میں مکاں چاہتے ہیں
رازِ ہستی سے جو پردہ نہیں اٹھتا نہ اٹھے
آپ کیوں اپنے تجسس کا زیاں چاہتے ہیں
شام ہوتے ہی لگاتے ہیں درِ دل پہ صدا
آبلہ پا ہیں اکیلے ہیں اماں چاہتے ہیں

دور عرفانؔ رہو ان سے کہ جو اہلِ سخن
التفاتِ نگۂ کم نظراں چاہتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام