اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے

غزل| پیرزادہ قاسم انتخاب| بزم سخن

اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرمِ اسیری کی سزا دی جائے
دستِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا دی جائے
اس کی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں
بے حسی وقت کی آواز بنا دی جائے
صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر
ایک شب اور مری شب سے ملا دی جائے
شرط اب یہ تو نہیں دل سے بھی دل ملتے ہوں
صرف آواز میں آواز ملا دی جائے
بے ضرورت ہو ملاقات ضروری تو نہیں
بزم کے ساتھ ہی یہ رسم اٹھا دی جائے
صرف جلنا ہی نہیں ہم کو بھڑکنا بھی ہے
عشق کی آگ کو لازم ہے ہوا دی جائے
اور اک تازہ ستم اس نے کیا ہے ایجاد
اُس کو اِس بار ذرا کھل کے دعا دی جائے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام