خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہئے

غزل| عرفانؔ ستار انتخاب| بزم سخن

خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہئے
چشمِ رمز آشنا قلبِ عقدہ کشا اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہئے
مستقل دل میں موجود ہے اک چبھن اب نہ وہ خوش دلی ہے نہ ویسا سخن
مضطرب ہے طبیعت بہت ان دنوں کچھ علاج اس کا اے چارہ گر چاہئے
چاک عہدِ تمنا کے سب سل گئے ہجر کے ساز سے دل کے سر مل گئے
بس یہی ٹھیک ہے کاتبِ زندگی عمر باقی اسی طرز پر چاہئے
ذوقِ تخلیق کی آبیاری کہاں ہم کہاں اور یہ ذمہ داری کہاں
حسبِ توفیق محوِ سخن ہیں مگر یہ نہیں جانتے کیا ہنر چاہئے
ہر کسی کو گلہ بیش و کم ہے یہی آدمی کا ہمیشہ سے غم ہے یہی
جو ملا اس کی ایسی ضرورت نہ تھی جو نہیں مل سکا وہ مگر چاہئے
رنگ و خوشبو کا سیلاب کس کام کا ایک لمحہ تو ہے عمر کے نام کا
یہ نظارہ بہ قدرِ نظر چاہئے یہ مہک بس ہمیں سانس بھر چاہئے
نخلِ دل کی ہر اک شاخ بے جان ہے تازگی کا مگر پھر بھی امکان ہے
زندگی کی ذرا سی رمق چاہئے اب نفس کا یہاں سے گزر چاہئے
کام کچھ خاص ایسا یہاں پر نہیں قرض بھی اب کوئی جسم و جاں پر نہیں
یعنی اپنی طرف واپسی کے لیے اب ہمیں صرف اذنِ سفر چاہئے
لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لئے اس دیارِ سخن میں گزر کے لئے
عاجزی چاہئے آگہی چاہئے دردِ دل چاہئے چشمِ تر چاہئے
آپ کی در بہ در جبہ سائی کہاں میرؔ کی خاکِ پا تک رسائی کہاں
آپ کو خلعتِ سیم و زر چاہئے وہ بھی کچھ وقت سے پیشتر چاہئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام