فاصلے نہ بڑھ جائیں فاصلے گھٹانے سے

غزل| نصرتؔ صدیقی انتخاب| قتیبہ جمال

فاصلے نہ بڑھ جائیں فاصلے گھٹانے سے
آؤ سوچ لیں پہلے رابطے بڑھانے سے
عرش کانپ جاتا تھا ایک دل دکھانے سے
وہ زمانہ اچھا تھا آج کے زمانے سے
خواہشیں نہیں مرتیں خواہشیں دبانے سے
امن ہو نہیں سکتا گولیاں چلانے سے
دیکھ بھال کر چلنا لازمی سہی لیکن
تجربے نہیں ہوتے ٹھوکریں نہ کھانے سے
ایک ظلم کرتا ہے ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے
کتنے زخم چھلتے ہیں کتنے پھول کھلتے ہیں
گاہ تیرے آنے سے گاہ تیرے جانے سے
کارزارِ ہستی میں اپنا دخل اتنا ہے
ہنس دئیے ہنسانے سے رو دئیے رلانے سے
چھوٹے چھوٹے شہروں پر کیوں نہ اکتفا کر لیں
کھیتیاں اجڑتی ہیں بستیاں بسانے سے
زخم بھی لگاتے ہو پھول بھی کھِلاتے ہو
کتنے کام لیتے ہو ایک مسکرانے سے
اور بھی سنورتا ہے اور بھی نِکھرتا ہے
جلوۂ رخِ جاناں دیکھنے دکھانے سے
جب تلک نہ ٹوٹے تھے خیر و شر کے پیمانے
وہ زمانہ اچھا تھا آج کے زمانے سے
ہر طرف چراغاں ہو تب کہیں اجالا ہو
اور ہم گریزاں ہیں اک دیا جلانے سے

چاند آسماں کا ہو یا زمین کا نصرتؔ
کون باز آتا ہے انگلیاں اٹھانے سے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام