دل ہی ادا کرے تو کرے دل کے واجبات

غزل| نصرتؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

دل ہی ادا کرے تو کرے دل کے واجبات
آنکھوں سے طے نہ ہوں گے دلوں کے معاملات
محرومیوں نے دل کی تمنائیں چھین لیں
بچوں نے کرنے چھوڑ دئے ہیں مطالبات
گو زندگی گزار رہے ہیں سبھی مگر
حاصل کسی کسی کو ہیں اس کے لوازمات
لوگوں نے اپنی ذات سے منسوب کر لئے
میں نے رقم کئے تھے فقط اپنے واقعات
بارِ غمِ حیات وہی کا وہی رہا
ہم نے گھٹا کے دیکھ لیں اپنی ضروریات
آنکھوں کے راستے کبھی محمود بن کے آ
مدت سے منتظر ہے مرے دل کا سومنات
لوگو تمہارے حسنِ مروت کو کیا ہوا
میزانِ زر میں تول رہے ہو تعلقات
انجام ایک سا ہے وہ نصرتؔ ہو یا کہ میرؔ
ذرے کو ہے ثبات نہ خورشید کو ثبات



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام