کئی منزلیں تراشیں کئی کارواں بنائے

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| قتیبہ جمال

کئی منزلیں تراشیں کئی کارواں بنائے
جو سفر کا نام آیا میرے پاؤں ڈگمگائے
وہ طلب بھی کیا طلب تھی وہ کشش بھی کیا کشش تھی
تری سمت یوں بڑھے ہم نہ خود اپنے ہاتھ آئے
کہیں کلفتوں کا رونا کہیں غفلتوں کا رونا
کسی راستے میں کانٹے کسی راستے میں سایے
نہ اطاعتیں گزاریں نہ محبتیں نباہیں
نہ خدا کے کام آئے نہ بتوں کے کام آئے
وہی میری بے کسی پر لگے ہنسنے دور ہٹ کر
جو وفا کا عہد کرتے میرے ساتھ ساتھ آئے
لو بزمِ دوست میں بھی نہ نبھے حفیظؔ صاحب
کوئی ایسے نکتہ چیں کو بھلا کیسے منہ لگائے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام