محشر میں کانپتے ہیں ستم گر الگ الگ

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| بزم سخن

محشر میں کانپتے ہیں ستم گر الگ الگ
جانا ہے پیشِ داورِ محشر الگ الگ
جب رات ہو گئی تو فلک پر بچھا لیے
تاروں نے اپنے نور کے بستر الگ الگ
بھاشن فساد کے کبھی تقریر امن کی
جادوگروں کو یاد ہیں منتر الگ الگ
یک جا نہ ہو سکیں گے یہ رہبر بڑے بڑے
ہیں خاص مچھلیوں کے سمندر الگ الگ
یلغار ایک ہو کے مجھی پر کریں گے سب
خیمے الگ الگ سہی لشکر الگ الگ
اس بد نصیب شہر میں چلتے ہیں آدمی
اک دوسرے کے سائے سے بچ کر الگ الگ
مل بیٹھنے کی بات کریں کیسے ائے حفیظؔ
ناراض دوستوں کے ہیں تیور الگ الگ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام