چھوڑ کر دل میں گئی وحشی ہوا کچھ بھی نہیں

غزل| ظہور نظرؔ انتخاب| بزم سخن

چھوڑ کر دل میں گئی وحشی ہوا کچھ بھی نہیں
کس قدر گنجان جنگل تھا رہا کچھ بھی نہیں
خاک پائے یاد تک گیلی ہوا نے چاٹ لی
عشق کی غرقاب بستی میں بچا کچھ بھی نہیں
حال کے زنداں سے باہر کچھ نہیں جز رود مرگ
اور اس زنداں میں جز زنجیرِ پا کچھ بھی نہیں
ہجر کے کالے سمندر کا نہیں ساحل کوئی
موجۂ طوفانِ دہشت سے ورا کچھ بھی نہیں
آبنائے درد کے دونوں طرف ہے دشتِ خوف
اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں
ہاتھ میرا اے مری پرچھائیں تو ہی تھام لے
ایک مدت سے مجھے تو سوجھتا کچھ بھی نہیں
شہرِ شب میں کون سا گھر تھا نہ دی جس پر صدا
نیند کے اندھے مسافر کو ملا کچھ بھی نہیں
رات بھر اک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرف
جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں
کاسۂ جاں ہاتھ میں لے کر گئے تھے ہم وہاں
لائے اس در سے بجز خونِ صدا کچھ بھی نہیں
عمر بھر عمرِ گریزاں سے نہ میری بن سکی
جو کرے کرتی رہے میں پوچھتا کچھ بھی نہیں
وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھ کر
میں نے اس کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیں
دولتِ تنہائی بھی آنے سے تیرے چھن گئی
اب تو میرے پاس اے جانِ وفا کچھ بھی نہیں

دل پہ لاکھوں لفظ کندہ کر گئی اس کی نظرؔ
اور کہنے کو ابھی اس نے کہا کچھ بھی نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام