محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا

غزل| غلام محمد قاصرؔ انتخاب| بزم سخن

محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا
جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل اُدھر لے جا
تبسم سے حقیقی خال و خد ظاہر نہیں ہوتے
تعارف پھول کا درپیش ہے تو چشمِ تر لے جا
اندھیرے میں گیا وہ روشنی میں لوٹ آئے گا
دیا جو دل میں جلتا ہے اسی کو بام پر لے جا
اُڑانوں ، آسمانوں ، آشیانوں کے لئے طائر!
یہ پَر ٹوٹے ہوئے میرے یہ معیارِ نظر لے جا
زمانوں کو اُڑانیں برق کو رفتار دیتا تھا
مگر مجھ سے کہا ٹھہرے ہوئے شام و سحر لے جا
کوئی منہ پھیر لیتا ہے تو قاصرؔ اب شکایت کیا
تجھے کس نے کہا تھا آئینے کو توڑ کر لے جا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام