کتنی بلندیوں پہ سرِ دار آئے ہیں

غزل| معین احسن جذبیؔ انتخاب| بزم سخن

کتنی بلندیوں پہ سرِ دار آئے ہیں
کسی معرکہ میں اہلِ جنوں ہار آئے ہیں
گھبرا اٹھے ہیں ظلمتِ شب سے تو بارہا
نالے ہمارے لب پہ شرر بار آئے ہیں
اے قصہ گو ازل سے جو بیتی ہے وہ سنا
کچھ لوگ تیرے فن کے پرستار آئے ہیں
پائی گلوں سے آبلہ پائی کہ جب نہ داد
دیوانے ہیں کہ سوۓ لبِ خار آئے ہیں
غم خواریوں کی تہہ میں دبی سی مسرتیں
یوں میرے پاس بھی مرے غم خوار آئے ہیں
پہنچے ہیں جب بھی خلوتِ دل میں تو اے ندیم
اکثر ہم اپنے آپ سے بیزار آئے ہیں
اُس بزم میں تو مے کا کہیں ذکر تک نہ تھا
اور ہم وہاں سے بے خود و سرشار آئے ہیں
اُس کی گلی میں ہم نے لٹا دی متاعِ جاں
اس کی گلی سے ہم تو سبک سار آئے ہیں
کرتے رہے ہیں فن کی پرستش تمام عمر
محشر میں کیسے کیسے گنہ گار آئے ہیں
جذبیؔ جو ہو سکے تو مری حیرتوں سے پوچھ
کس طرح میرے ذہن میں اشعار آئے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام