عشق میں معرکے بلا کے رہے

غزل| ظہور نظرؔ انتخاب| بزم سخن

عشق میں معرکے بلا کے رہے
آخرش ہم شکست کھا کے رہے
یہ الگ بات ہے کہ ہارے ہم
حشر اک بار تو اٹھا کے رہے
سفرِ غم کی بات جب بھی چلی​
تذکرے تیرے نقشِ پا کے رہے
جب بھی آئی کوئی خوشی کی گھڑی
دن غموں کے بھی یاد آ کے رہے
جس میں سارا ہی شہر دفن ہوا
فیصلے سب اٹل ہوا کے رہے
اپنی صورت بگڑ گئی لیکن​
ہم انہیں آئینہ دکھا کے رہے
ہونٹ تک سی دیے تھے پھر بھی نظرؔ
ظلم کی داستاں سنا کے رہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام