دھڑکتے دل کو یوں دھڑکن سنایا کرتے ہیں

غزل| دانشؔ عزیز انتخاب| بزم سخن

دھڑکتے دل کو یوں دھڑکن سنایا کرتے ہیں
کھلی ہوں بانہیں تو ان میں سمایا کرتے ہیں
یہ چاہتوں کا چلن سیکھ لو تو اچھا ہے
کوئی منائے تو بس مان جایا کرتے ہیں
بہت سی باتیں نہیں ہوتی ہیں بتانے کی
بطورِ خاص محبت چھپایا کرتے ہیں
خدا کے واسطے تفصیل میں نہ جایا کرو
کہ جتنا پوچھا ہو اتنا بتایا کرتے ہیں
جنہیں ہو کہنا کہ رک جائیں سب کو جانے دیں
ملا کے ہاتھ ذرا سا دبایا کرتے ہیں
نحیف دل کو سنبھلنے کا دیجئے موقع
ٹھہر ٹھہر کے یہ جلوے دکھایا کرتے ہیں
اگر یہ دل ہو کہ سورج کی دھوپ سایہ بنے
تو اپنے نام کے پودے لگایا کرتے ہیں
جنہیں لکھا ہو کسی نے بڑی محبت سے
بڑے ادب سے وہ نامے جلایا کرتے ہیں
وہ جن کے دم سے گلوں پر نکھار آتا ہو
بہار آئے تو ان کو بلایا کرتے ہیں
سمجھ لو بات چھپائیں گے جھوٹ بولیں گے
جو بات کرتے ہوئے سر کھجایا کرتے ہیں
نہ دیکھ پانا الگ سا بڑھاوا دیتا ہے
چراغ وصل سے پہلے بجھایا کرتے ہیں
مرے عزیز اے دانشؔ عزیز بات سمجھ
جنہیں ہو زعم انہیں آزمایا کرتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام