میرے جیسے اس بستی میں اور بھی پاگل رہتے ہیں

غزل| دانشؔ عزیز انتخاب| بزم سخن

میرے جیسے اس بستی میں اور بھی پاگل رہتے ہیں
سب نے آنکھیں گروی رکھ کر آدھے خواب خریدے ہیں
کوئل ، کوا ، چیل ، کبوتر ، طوطا ، مینا ، چڑیا ، مور
شام ڈھلے سب چپ چپ بیٹھے اک دوجے کو تکتے ہیں
دریا ، ساگر ، امبر ، بادل ، بارش ، آندھی ، دھوپ ، ہوا
سب تیرا بہروپ ہے سائیں! تیرا نام ہی جپتے ہیں
خالی کرسی ، دو کپ چائے ، سبزہ ، خوشبو ، بوندا باندی
صبح سویرے مجھ سے مل کر تیر ی باتیں کرتے ہیں
ہجر ، اداسی ، وحشت ، آنسو ، آوارہ پن ، بیزاری
شوریدہ دل ، چاک گریباں سب الفت کے جھگڑے ہیں
ساغؔر ، میؔر ، فرؔاز اور غالؔب ، مومؔن ، داؔغ ، قتیؔل اور فیؔض
اوڑھ کے نظمیں غزلیں مصرعے چین سکون سے سوئے ہیں
باتیں، یادیں ، راتیں ، آنکھیں ، بانہیں ، آہیں ، فریادیں
سونے گھر کے اک کونے میں اکثر مل کر روتے ہیں
چاند ستارے ، جگنو ، سورج ، پریاں ، جن اور اڑتے پنچھی
سب دھرتی پر آ کر دانؔش اس کے پاؤں کو چھوتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام