میں جو صحرا میں کسی پیڑ کا سایہ ہوتا

غزل| پرتوؔ روہیلہ انتخاب| بزم سخن

میں جو صحرا میں کسی پیڑ کا سایہ ہوتا
دل زدہ کوئی گھڑی بھر کو تو ٹھہرا ہوتا
اب تو وہ شاخ بھی شاید ہی گلستاں میں ملے
کاش اس پھول کو اس وقت ہی توڑا ہوتا
وقت فرصت نہیں دے گا ہمیں مڑنے کی کبھی
آگے بڑھتے ہوئے ہم نے جو یہ سوچا ہوتا
ہنستے ہنستے جو ہمیں چھوڑ گیا ہے حیراں
اب رلانے کے لئے یاد نہ آیا ہوتا
وقتِ رخصت بھی نرالی ہی رہی دھج تیری
جاتے جاتے ذرا مڑ کے بھی تو دیکھا ہوتا
کس سے پوچھیں کہ وہاں کیسی گزر ہوتی ہے
دوست اپنا کبھی احوال ہی لکھا ہوتا
ایسا لگتا ہے کہ بس خواب سے جاگا ہوں ابھی
سوچتا ہوں کہ جو یہ خواب نہ ٹوٹا ہوتا
زندگی پھر بھی تھی دشوار بہت ہی دشوار
ہر قدم ساتھ اگر ایک مسیحا ہوتا

ایک محفل ہے کہ دن رات بپا رہتی ہے
چند لمحوں کے لیے کاش میں تنہا ہوتا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام