عرش سے رخ جانبِ دنیائے دوں کرنا پڑا

غزل| ماجؔد صدیقی انتخاب| بزم سخن

عرش سے رخ جانبِ دنیائے دوں کرنا پڑا
بندگی میں کیا سے کیا یہ سر نگوں کرنا پڑا
منتِ ساحل بھی سر لے لی بھنور میں ڈولتے
ہاں یہ حیلہ بھی ہمیں بہرِ سکوں کرنا پڑا
سامنے اس یار کے بھی اور سرِ دربار بھی
ایک یہ دل تھا جسے ہر بار خوں کرنا پڑا
ہم کہ تھے اہلِ صفا یہ راز کس پر کھولتے
قافلے کا ساتھ آخر ترک کیوں کرنا پڑا

خم نہ ہو پایا تو سر ہم نے قلم کروا لیا
ووں نہ کچھ ماجدؔ ہوا ہم سے تو یوں کرنا پڑا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام