ہر حرف تجھ بدن کا نظر کے قریں لگے

غزل| ماجؔد صدیقی انتخاب| بزم سخن

ہر حرف تجھ بدن کا نظر کے قریں لگے
تھاموں قلم تو سادہ ورق بھی حسیں لگے
آتا ہو چھو کے جیسے ترے ہی جمال کو
اب کے تو ہر خیال مجھے شبنمیں لگے
چھایا ہے وہ خمار تری صبحِ یاد کا
جو موجۂ صبا ہے مے و انگبیں لگے
شعلے تمام اس میں تری دید ہی کے ہیں
میری نگاہ کیوں نہ بھلا آتشیں لگے
انوار اور بھی تو پہنچ میں ہیں اب مری
کیوں کریہ ایک چاند ہی تیری جبیں لگے
میرے لہو کا حسن بھی جھلکے بہ حرف و صوت
ہاں اپنے ہاتھ تجھ سا اگر نازنیں لگے

خوشبو ہے اس میں رنگ ہیں ندرت ہے تہ بہ تہ
ماجدؔ کا شعر تیرے بدن کی زمیں لگے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام