کب تلک شب کے اندھیروں میں سحر کو ترسے

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| سید ریّان

کب تلک شب کے اندھیروں میں سحر کو ترسے
وہ مسافر جو بھرے شہر میں گھر کو ترسے
آنکھ ٹہرے ہوئے پانی سے بھی کتراتی ہے
دل وہ رہرو کہ سمندر کے سفر کو ترسے
مجھ کو اس قحط کے موسم سے بچا ربِ سخن
جب کوئی اہلِ ہنر عرضِ ہنر کو ترسے
اب کے اِس طور مسلّط ہو اندھیرا ہر سو
ہجر کی رات مرے دیدۂ تر کو ترسے
عمر اتنی تو مرے فن کو عطا کر خالق
مرا دشمن مرے مرنے کی خبر کو ترسے
اس کو پا کر بھی اسے ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
جیسے پانی میں کوئی سیپ گہر کو ترسے
ناشناسائی کے موسم کا اثر تو دیکھو!
آئینہ خال و خدِ آئینہ گر کو ترسے
ایک دنیا ہے کہ بستی ہے تری آنکھوں میں
وہ تو ہم تھے جو تری ایک نظر کو ترسے

شورِ صرصر میں جو سَرسبز رہی ہے محسنؔ
موسمِ گل میں وہی شاخ ثمر کو ترسے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام