رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے

غزل| سمپورن سنگھ گلزارؔ انتخاب| بزم سخن

رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے
قرار دے کے ترے در سے بے قرار چلے
اٹھائے پھرتے تھے احسان جسم کا جاں پر
چلے جہاں سے تو یہ پیرہن اتار چلے
نہ جانے کون سی مٹی وطن کی مٹی تھی
نظر میں دھول جگر میں لیے غبار چلے
سحر نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے
تھی رات رات کی یہ زندگی گزار چلے

ملی ہے شمع سے یہ رسمِ عاشقی ہم کو
گناہ ہاتھ پہ لے کر گناہ گار چلے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام