شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا​

غزل| فانیؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا​
ساری امیدیں ٹوٹ گئیں دل بیٹھ گیا جی چھوٹ گیا​
فصلِ گل آئی یا اجل آئی کیوں درِ زنداں کھلتا ہے​
کیا کوئی وحشی اور آپہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا​
لیجئے کیا دامن کی خبر اور دستِ جنوں کو کیا کہیئے​
اپنے ہی ہاتھ سے دل کا دامن مدت گذری چھوٹ گیا​
منزلِ عشق پہ تنہا پہنچے کوئی تمنا ساتھ نہ تھی​
تھک تھک کر اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا​
اس نے عدو کا سوگ کیا یاں اس سے وفا کی آس بندھی
داغِ تمنا رنگِ حنا کی دیکھا دیکھی چھوٹ گیا
فانیؔ ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن​
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا​



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام