بنا لیں گلستاں دل کو نظر کو باغباں کر لیں

غزل| ساغرؔ نظامی انتخاب| بزم سخن

بنا لیں گلستاں دل کو نظر کو باغباں کر لیں
ہمارے بس میں ہو تو اپنی دنیا جاوداں کر لیں
تعیّن وجہِ تسکیں ہے تجاوز وجہِ بربادی
قفس کو کیوں خیالوں میں حریفِ آشیاں کر لیں
ہَوا طوفانِ رنگ و بو کا ساماں لے کے آئی ہے
چمن والے ابھی سے انتظامِ گلستاں کر لیں
جنہیں مدِّ نظر ہو امتحاں معیارِِ وحشت کا
وہ پہلے اپنے معیارِِ نظر کا امتحاں کر لیں
میں ناواقف سہی منزل سے منزل مجھ سے واقف ہے
مجھے بھی قافلے والے شریکِ کارواں کر لیں
چمن میں جانے کل کس برق وش کی حکمرانی ہو
ابھی سے عندلیب و گل کو اپنا راز داں کر لیں
ہمارا حق ہے اے صیّاد ہر غنچہ پہ ہر گل پر
جو ہم چاہیں تو ہر شاخِ چمن پر آشیاں کر لیں
گل اپنے غنچے اپنے گلستاں اپنا بہار اپنی
گوارا کیوں چمن میں رہ کے ظلمِ باغباں کر لیں
اسی خاکِ چمن سے ابرِ خونیں بن کے اٹھوں گا
وہ میرے خون سے رنگیں قبائے گلستاں کر لیں
یہ اک بجلی کہ رقصاں ہے یہ اک شعلہ کہ عریاں ہے
جو مل جائے تو ہم روشن چراغِ آشیاں کر لیں
ہمارے سجدوں میں روحانیت ہے تیرے جلوؤں کی
جبیں جس ذرّے پر رکھ دیں مرتب آستاں کر لیں
نیا نوحہ لکھے گا کون مرگِ نوجوانی کا
مرا اک شعرِغم ہی یاد میرے نوحہ خواں کر لیں

نہ دے پھر کوئی غربت میں ثبوتِ آبلہ پائی
وہ ساغرؔ کاش کانٹوں کو بھی اپنا ہم زباں کر لیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام