ہے کمال رقصِ صوفی بھی نشاطِ پادشاہی

غزل| ساغرؔ نظامی انتخاب| بزم سخن

ہے کمال رقصِ صوفی بھی نشاطِ پادشاہی
بڑی مدّتوں میں ٹوٹا یہ فریبِ خانقاہی
یہی میری آدمیّت کی دلیلِ برتری ہے
کہ لگا نہیں جبیں پر کبھی داغِ بے گناہی
مجھے کیوں ہو فکرِ شاہد کہ معاملہ ہے روشن
میں تری کھلی شہادت تو مری کھلی گواہی
ہے عجیب لا اُبالی مرا مسلکِ جنوں بھی
نہ اُصولِ پاک بازی نہ شعارِ بے گناہی
مری زندگی میں ساغرؔ وہ بلا کا بانکپن ہے
نہ اطاعتِ اوامر نہ پرستشِ نواہی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام